اشہر ہاشمی
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک عوامی تحریک ملک بھر میں چل پڑی ہے جس کا توڑ کرنے کے لئے وزیر اعظم سمیت پوری سرکاری مشنری جھوٹ کا سہارا لینے پر ٹل گئی ہے۔ سرکاری اہل کار یہ بولنے لگے ہیں کہ یہ قانون ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نہیں ۔ رشوت لے کر کچھ مسلمانوں سے بھی یہی بات کہلوائی جا رہی ہے، جو کہ سچ یہ ہے کہ یہ قانون نہ صرف مسلمان کے بلکہ ہندوستان کے آئین کے بھی خلاف ہے اور اس کے خلاف تحریک پر عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے مسلمانوں کا رنگ گاڑھا کیا جا رہا ہے۔
اس وقت جبکہ دیگر برادران وطن، سیکولر سیاسی پارٹیاں اور معقولیت پسند سوچ کی حامل غیر سیاسی عوامی تنظیمیں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پوری شدت سے سڑکوں پر ہیں ۔بعض ایسی ملی تنظیمیں ، جو عوامی ٹائپ سے محروم ہو گئی ہیں ،پھر سے مسلمانوں میں اپنی پوزیشن بحال کرنے کے لئے جمعہ جلوس کا اہتمام کر رہی ہیں۔ ان جلوسوں میں غیر دانشمندانہ ،اشتعال انگیز نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ سبز پرچم لہرایا جا رہا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور وہی اس کے خلاف احتجاج کرنے نکلے ہیں ۔ ملی تنظیمیں اگر اپنے سابقہ کردار پر نگاہ ڈالیں تو انہیں اس کا اندازہ بخوبی ہوگا کہ انہوں نے سمجھوتے کر کے ہندوستانی مسلمان کو اس جگہ پہنچا دیا جہاں اس کے پیروں کے نیچے سے زمین چھین لینے کا بھرپور اہتمام ہوگیا ہے۔
وہ یکے بعد دیگرے آر ایس ایس کے ساتھ مختلف امور پر سمجھوتے کرتی چلی گئیں اور ہمیشہ یہ یقین دلایا کہ مسلمان احتجاج کرنے باہر نہیں نکلے گا کیونکہ مسلمان کی ایک ایک سانس علما،آئمہ ،مشائخ کے پاس گروی ہے۔ ایک خاص حد تک ان کا یہ ماننا ،سمجھنا،منوانا اور باور کرانا درست بھی تھا۔ مسلمان لو جہاد پر خاموش رہا،جبری تبدیل مذہب پر خاموش رہا ،کھانے پر پابندی پر خاموش رہا،ماب لنچنگ پر خاموش رہا،تین طلاق بل پر خاموش رہا،دفعہ 370کی منسوخی پر خاموش رہا۔ کشمیر میں ایک غرب اردن بنانے کی کوشش پر خاموش رہا ،تین طلاق بل پر خاموش رہا۔یہاں تک کہ آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر سے لاکھوں مسلمانوں کو نکالنے پر بھی خاموش رہا اور بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی پنچایت پر بھی خاموش رہا۔
ضبط کہاں آکر ٹوٹا ؟شہریت ترمیمی بل پر۔اس بل کی تفصیلات پر جانے کی ضرورت نہیں ،سوائے اس کے کہ اس بل پر مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن آسام میں جو غیر مسلم ہندوستانی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں ان کو شہریت مل جائے گی اور جو مسلمان شہریت ثابت نہیں کر سکے ہیں وہ حسب سابق غیر شہری رہیں گے اور اپنی اس نئی حیثیت کا عذاب جھیلیں گے۔شہریت ترمیمی بل لانے سے پہلے امت شاہ ایک موقعہ پر اپنی اس بد نیتی کا کھلا کر اظہار کر چکے ہیں۔ ریاست آسام سے باہر جہاں بھی اب شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی)نافذ کیا جائے گا وہاں شہریت ترمیمی قانون کی نفاذ کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے کاغذات پیش نہ کرنے کی صورت میں غیر شہری قرار دیا جائے گا۔ہندوستان ایک مہذب جمہوری سیکولر معاشرہ ہے اور اس کا ثبوت 70برسوں میں پہلی بار اب مل رہا ہے جب ہندو دانشور اور سیاسی،سماجی کارکن اور دوسرے لوگ اس نئے قانون کے خلاف مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑائی میں شامل ہیں۔
ہم پر فرض ہوتا ہے کہ ہم مسجدوں کے بجائے گاندھی مجسمہ یا امبیڈکر مجسمہ کے پاس جمع ہو کر وہاںسے جلوس نکالیں۔ جو شرکا عام طور پر کرتا ،پاجامہ ،ٹوپی میں رہتے ہیں انہیں اپنا لباس بدلنے کی ضرورت نہیں لیکن جو عام ہندوستانیوں کے لباس میں ہوتے ہیں وہ جلوس میں شرکت کے لئے زبردستی مسلمانوں جیسے کپڑے زیب تن کرنے سے گریز کریں ،ترنگا لہرائیں اور دستور کی حمایت میں نعرے بازی کریں ۔کیونکہ سیکولر ملک کا دستور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریقی سلوک برتنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ بعض ریاستیں جیسے کہ یوپی کی پولیس کا بھی رویہ انتہائی جارحانہ ہے اور مسجدوں سے نکلنے والے جمعہ جلوس خاص کر پولیس تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
پولیس کے تشدد سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکمت عملی کے تحت تمام فرقوں کے لوگوں کو ساتھ رکھ کر جلوس کا چہرہ اور کردار عوامی رکھا جائے ۔یہ مظاہرے ابھی اور تیز ہوںگے۔ مودی سرکار جیسے جیسے جھوٹ بولے گی ویسے ویسے عوامی اشتعال بڑھے گا لیکن اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لئے جو زرخرید بااثر مسلمان حکومت کی لے سے لے ملا کر آئے گاوہ عوامی نا پسندیدگی کا شکار ہوگا ۔ یہ تقریباً طے پا چکا کہ ہندوستانی مسلمان اب کسی نام نہاد ملی رہنما کو اپنی ترجمانی کرتا دیکھنے کو تیار نہیں ہے ۔ رائے قومی سطح پر بن چکی ہے کہ آر ایس ایس۔بی جے پی کی ایماپر جو لوگ بھی بیان بازی کریں گے ان کا ہر بیان ان کی ذاتی رائے سے زیادہ نہیں سمجھا جائے گا ۔کیونکہ وہ ملت کے دکھ درد کے بجائے حکومت کی مصلحت کو عوام پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔