ٹورنٹو : کینیڈا کے عام انتخابات میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کسی طرح اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اب وہ ایک اقلیتی حکومت کے وزیر اعظم ہوں گے۔کہا جا رہا ہے کہ لبرل پارٹی کو 156 نشستیں ملیں گی جو کہ اکثریت سے 14 نشستیں کم ہے جس سے جسٹن ٹرڈو کے لیے اپنی دوسری مدت میں قوانین منظور کروانا مشکل ہو جائے گا۔امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ کنزرویٹو حزب اختلاف کو عوامی ووٹ ملا ہے لیکن وہ نشستوں میں منتقل نہیں ہو سکا۔
حزب اختلاف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں 122 سیٹیں ملیں گی جو کہ ماضی کی 95 سیٹوں سے 27 نشستیں زیادہ ہے۔بہر حال پیر کی شب کو بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی نیو ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی سیٹوں میں بڑی کمی دیکھی گئی لیکن اس کے رہنما جگمیت سنگھ کنگ میکر یعنی حکومت ساز بن سکتے ہیں۔این ڈی پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا کی 338 رکنی پارلیمان میں 24 نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان انتخابات میں 65 فیصد افراد نے ووٹ ڈالے۔وفاقی انتخابات کو ٹروڈو کی قیادت پر ریفرینڈم کے طور پر دیکھا جا رہا تھا
کیونکہ ان کا پہلا دور حکومت بہت نشیب و فراز والا تھا اور وہ اس دوران کئی سکینڈلز کی زد میں رہے۔انھوں نے مانٹریال میں جشن منانے والے اپنے حامیوں سے کہا: ‘دوستوں تم نے کر دکھایا۔ مبارک باد!’اپنے ووٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے ہم لوگوں پر اعتماد دکھانے کے لیے شکریہ۔’اور جنھوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا، ان کے لیے انھوں نے وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی سب کے لیے حکومت کرے گی۔نیو ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی سیٹوں میں بڑی کمی دیکھی گئی لیکن اس کے رہنما جگمیت سنگھ کنگ میکر یعنی حکومت ساز بن سکتے ہیںاقتدار پر ان کی کمزور گرفت کو ان کے ریکارڈ پر ایک دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
جبکہ انتخابات کے نتائج کنزرویٹو لیڈر اینڈریو شیئر کے لیے انتہائی مایوس کن رہے۔جسٹن ٹروڈو نے سنہ 2015 میں ‘حقیقی تبدیلی’ اور ترقی پسند عہد کے نام پر بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔لیکن چار سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد مسٹر ٹروڈو کو ان کی صلاحیت میں کمی کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔مثال کے طور پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے ان کے ریکارڈ کو ٹرانس ماؤنٹین آئل پائپ لائن کے توسیعی منصوبے کی حمایت سے نقصان پہنچا ہے۔اور ٹروڈو اپنے وفاقی سطح پر انتخابی اصلاحات کے وعدے سے فوراً ہی دستبردار ہوگئے تھے جس سے متبادل ووٹنگ نظام دیکھنے کے خواہشمند بائیں بازو کے ووٹرز میں اشتعال پھیلا تھا۔
مگر اس کے باوجود دو درجن کینیڈین محققین کے ایک آزادانہ جائزے کے مطابق ٹروڈو نے مکمل یا جزوی طور پر ان میں سے 92 فیصد وعدوں کی پاسداری کی ہے جو کہ گزشتہ 35 سال میں کسی بھی کینیڈین حکومت سے زیادہ ہے۔ٹروڈو کی انتخابات میں کامیابی کے امکانات اس وقت بھی کم نظر آنے لگے تھے جب تین مختلف مواقع پر ان کی سیاہ میک اپ کی ہوئی تصاویر وائرل ہوئی تھیں۔ان تصاویر کو ٹروڈو کے ‘تمام طبقات کے لیے ہمدرد’ کے پروان چڑھائے گئے سیاسی تشخص کے لیے بڑا دھچکا تصور کیا گیا تھا۔