logo
sidebar advertisement

قومی خبریں

تعلیم و روزگار

بلڈوزر انصاف مہذب سماج میں عدالتی نظام کے لیے خطرناک چیلنج ہے…عبید اللہ ناصر

یہ بلڈوزر انصاف نہ صرف مہذب سماج کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ ملک کے عدالتی نظام کے لئے بھی چیلنج ہے مگر شرمناک صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور زیادہ تر ہائی کورٹ اس معاملہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں

بلڈوزر کی علامتی تصویر

ہندوستان میں انصاف کا ایک مساوی نظام نافذ کر دیا گیا ہے جسے بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے ۔ یہ نظام انگریزوں کے ذریعہ لائے گئے ’رولٹ ایکٹ ‘ جیسا ہے جس کے بارے میں ہمارے مجاہدین آزادی نے کہا تھا کہ ’نہ وکیل نہ اپیل نہ دلیل ‘ بس سیدھے سزا سنا دی جاتی تھی۔ یہ نظام ابھی صرف بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں نافذ ہوا ہے اور اس کا نشانہ فی الحال مسلمان ہی ہیں، جس کا تازہ ترین شکار مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے ایک سینئر لیڈر حاجی شہزاد احمد کا عالیشان مکان اور ان کی گاڑیاں ہوئی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ چھتر پور میں گستاخ رسول ؐ کے خلاف ایک احتجاج میں تھانہ کا گھیراؤ کیا گیا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ تھانہ پر پتھراؤ ہوا تھا۔ جس نے پتھراؤ کس نے کیا ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی نہیں پکڑا گیا، بس چونکہ احتجاج کی قیادت حاجی شہزاد کر رہے تھے اس لئے ان کا ان کا گھر منہدم اور قیمتی کاروں کو چکنا چور کر دیا گیا۔

اس سے چند دنوں قبل مدھیہ پردیش کے ہی اجین شہر میں اسکول کے دو بچوں میں لڑائی ہوئی ہے جس میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ٹیمپو ڈرائیور کے بچے نے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے کو چاقو مار دیا جس کی کچھ دیر بعد موت ہو گئی۔ جس اس کے فوری بعد اس اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے کے مکان پر بلڈوزر چلوا دیا گیا۔ اس ٹیمپو ڈرائیور نے کس طرح جان توڑ محنت کر کے اپنے بچوں کے لئے ایک چھت تعمیر کی ہوگی سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسے اس جرم کی سزا دی گئی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ ایسی لا تعداد مثالیں ہیں جہاں ایسے بلڈوزر انصاف کے ذریعہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کو ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی۔ بھیڑ میں اس طرح گھس کر پتھراؤ کرنے والے کون ہوتے ہیں یہ سبھی جانتے ہیں اسی لئے آج تک کبھی اصل گنہگار نہیں پکڑا جاتا۔ ایودھیا میں معید خان کے بزنس کمپلیکس کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا ان پر ایک نابالغ بچی کی ابرو ریزی کا الزام ہے ۔ بلڈوزر انصاف کا یہ سلسلہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے شروع کیا تھا ، جس کا انہیں سیاسی فائدہ ملا تو بی جے پی کے دوسرے وزرائے اعلی نے بھی یہ روش اختیار کر لی۔

اس ملک میں ایک سپریم کورٹ ہے اس میں ایک چیف جسٹس اور درجنوں فاضل جج صاحبان ہیں اسی طرح ہر ریاست میں ہائی کورٹ ہیں ان میں بھی ایک چیف جسٹس اور درجنوں جج ہوتے ہیں پھر ہر ضلع میں عدالتیں ہیں جن میں ضلع جج سمیت کئی جج ہوتے ہیں ان سب کے علاوہ سپریم کورٹ سے لے کر ضلع کچہری تک لاکھوں وکلاء ہیں ان سب کا فرض منصبی عوام کو ظالم سے بچا کر انہیں انصاف دینا انکے ان کا انسانی اور آئینی فریضہ ہے۔

مہذب سماج میں یہ ایک آئیڈیل صورت حال ہے لیکن عام طور سے یہ مقصد پورے طور سے تو پورا نہیں ہو پاتا پھر بھی کافی حد تک عدالتوں نے انصاف کے تقاضے پورے کئے ہیں اور اپنا فرض منصبی اور آئینی ذ مہ داری پوری کی ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ اس معاملہ میں کم و بیش نیک نام ہی رہی تھی لیکن گزشتہ دس برسوں میں عدلیہ زیادہ تر معاملات میں سرکار کی حاشیہ بردار ہی بنی رہی ۔حالت یہ ہے کہ جب بھی حکومت کے خلاف کوئی مقدمہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جاتا ہے زیادہ تر لوگ پہلے ہی اس کے فیصلے کی پیش گوئی کر دیتے ہیں۔

یہ بلڈوزر انصاف نہ صرف مہذب سماج کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ ملک کے عدالتی نظام کے لئے بھی چیلنج ہے مگر شرمناک صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور زیادہ تر ہائی کورٹ اس معاملہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہر مقدمہ میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہ دیا جاتا ہے یہ موقع ہ بار بار دیا جاتا ہے پھر ترقیاتی اتھارٹیاں کیا عدالتوں سے بھی اوپر ہو گئیں کہ وہ ملزم کو صفائی اور ثبوت پیش کرنے کی مہلت نہیں دیتیں اور اس سے بھی بڑی بات جب کوئی ناجائز تعمیر ہو رہی ہوتی ہے تو اتھارٹی کے افسران کہاں سو رہے ہوتے ہیں ، تب تو رشوت لے کر وہ تعمیر ہونے دیتے ہیں۔ کیا عدالتوں کو ایسے معاملات میں ترقیاتی اتھارٹیوں کے افسروں کی سرزنش نہیں کرنی چاہئے ؟ کیا ان سے ایسی ناجائز تعمیرات کے لئے جواب طلب نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ سب وہاں ہوتا ہے جہاں قانون اور انصاف کا راج ہوتا ہے، جب قانون اور انصاف مذہب ذات زبان اور علاقہ کا مرہون منت ہو جائے تو سب دلیلیں پس پشت چلی جاتی ہیں – لیکن ایک بات حکومت اور عدلیہ کو سمجھ لینی چاہئے جب انصاف کے سب دروازے بند ہو جائیں ہر طرف سے مایوسی ہو جائے تو پھر تنگ آمد بجنگ آمد کا دور شروع ہوتا ہے جو بہت ہی خطرناک صورت حل پیدا کر سکتا ہے۔

ضرورت ہے کہ ایک اور مفاد عامہ کی اپیل دائر کر کے انہدامی کارروائیوں کے لیے کے لیے رہنما اصول وضع کرائے جائیں ، جس میں کوئی بھی انہدام نوٹس دینے کے بعد منا سب وقت دے کر صفائی اور ثبوت طلب کئے جائیں اور ملزم کے قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے نیز ان افسروں سے بھی باز پرس ہو کہ ناجائز تعمیر بروقت کیوں نہیں روکی گئی ۔یہ رولٹ ایکٹ جیسا ظالمانہ طریقہ کسی نہ کسی طرح روکنا ضروری ہے ورنہ کب کس کا گھر کھنڈر بن جائے گا جائے گا نہیں کہا جا سکتا۔ درندوں کو انسانی خون کی عادت لگ جانے پر وہ بہت خطرناک ہو جاتے ہیں۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *